حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر برائے اسلامی ثقافت ڈاکٹر صالحی نے بین الاقوامی کانفرنس "ذوالجناحین" حضرت جعفر بن ابی طالب (ع) کے عنوان سے منعقدہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے حضرت جعفر طیار بن ابی طالب علیہ السّلام کو اسلامی تاریخ کے درخشاں ستاروں میں سے ایک قرار دیا۔
انہوں نے تاریخ کی رو سے مسلمانوں کی حبشہ کی طرف ہجرت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ہجرت نے اسلامی تاریخ، اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اسلام کے پھیلاؤ میں بہت بڑا حصہ ڈالا ہے۔ بعثت کے ابتدائی سال خفیہ طور پر گزرے تھے؛ لیکن جب رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی رسالت کا اعلان ہوا تو آنحضرت کے صحابہ کرام اور مسلمانوں پر بھی ظلم و ستم کا سلسلہ شروع ہوگیا، لہٰذا فطری طور پر ہجرت کا ایک مقصد مسلمانوں کو اس دباؤ سے آزاد کرنا تھا۔
ایرانی وزیر برائے اسلامی ثقافت نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تاریخ اور اہم اسلامی شخصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید کہا کہ محاجرین میں بہت سی عظیم ہستیاں تھیں، لیکن حضرت جعفر طیار کو مہاجرین کی قیادت کے لیے منتخب کرنے کی وجہ، ان کی کچھ اہم خصوصیات ہیں۔ ایک غیر مانوس علاقے میں اس طرح کی ہجرت کی قیادت جو کہ پندرہ سال تک جاری رہتی ہے، بہت اہم ہے۔
انہوں نے حضرت جعفر بن ابی طالب علیہ السّلام کی عظیم شخصیت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ روایات کے مطابق، حضرت جعفر طیار علیہ السّلام وہ دوسرے مرد ہیں، جنہوں نے رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی دعوت کو قبول کیا۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی بعثت سے پہلے حضرت جعفر میں اخلاقی خوبیوں کی گہرائی نے انہیں اسلام سے منحرف کرنے کے بجائے مکمل کر دیا۔ جعفر بن ابی طالب علیہ السّلام کی ذاتی خصوصیات بین الاقوامی میدان میں ایک مرد میدان (کمانڈر) کے کردار کو ظاہر کرتی ہیں۔
ڈاکٹر صالحی نے حضرت جعفر طیار ابن ابی طالب علیہ السّلام کی غیر معمولی ذہانت، شجاعت، شرح صدر اور بردباری کو وہ سب سے اہم اوصاف قرار دیا جن کی وجہ سے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مہاجرین کا سربراہ منتخب کیا۔
ایرانی اسلامی ثقافتی وزیر نے مہاجرین کے اسلامی عقائد کی حفاظت میں حضرت جعفر بن ابی طالب علیہ السّلام کی سرپرستی کو اہم کامیابی قرار دیا اور کہا کہ نو مسلم ایک گروہ کا نسبتاً قدیم معاشرے سے اپنے عقائد کے تحفظ کے ساتھ ایک مہذب معاشرے کی طرف ہجرت کرنا ایک اہم کامیابی اور بہت مشکل کام تھا، جسے جعفر بن ابی طالب علیہ السّلام نے بخوبی انجام دیا۔
آخر میں ایرانی اسلامی ثقافتی وزیر ڈاکٹر صالحی نے اس کانفرنس کی سماجی توسیع کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ ان تاریخی اور درخشاں شخصیات کو صرف حلقۂ دانشوروں میں رول ماڈل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ دینی مدارس اور قم المقدسہ کی وسیع صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس روحانی ثقافت کو معاشرے کی سطح پر پھیلانے کے لیے اقدام کیا جانا چاہیے۔